Pakistani Readers discussion
Short Story Contest
>
[2015, Jul] کاٹھ کی گڑیا
date
newest »

میرے شوھر نے دوسری شادی کر لی۔وہ اپنی نئ بیوی کے ساتھ جتنے خوش ھیں اتنا کبھی میرے ساتھ نھیں رھیں۔امی نے مجھے کھا کے طلاق لے لو مگر طلاق لینے سے کیا ھو گا؟انکا اپنی نئ بیوی سے جو پیار ھے وہ کم تو نھیں ھو گا ناں؟میں نے حرا کو لے کر جو خود سے وعدہ کیا وہ میں محض اک دوسری عورت کی خاطر داؤ پر نھیں لگا سکتی۔میں حرا کو بغیر باپ کی زندگی نھیں جینے دے سکتی۔امی میری یہ باتیں سن کر رو پڑی۔وجہ مجھے سمجھ نھیں آئ اور نا ھی میں نے جاننا چاھا۔
::::::::::::::::::::::::::::::::
حرا دس سال کی ھو گئ۔اسکے ابو نے اسے بے جا آسایشئں دی جن پر اگر میں منع کروں تو حرا مجھ سے بدتمیزی کرتی ھے۔حرا کا دھیان مجھ سے ھٹ رھا ھے۔وہ مجھے خود کا دشمن سمجھتی ھے۔میرا دل گھبراتا ھے کچھ غلط نا ھو جائے۔
::::::::::::::::::::::::::
امی کا انتقال ھو گیا۔اور انتقال کے چھ مھینے بعد ھی مجھے طلاق ھو گئ تھی۔میں اب دوبارہ اپنے میکے آگئ۔میں اب یھی رھتی ھوں۔مجھے حرا یاد آتی ھے۔میری کی گئ خدمتوں کے بدلے شھریار اگر مجھے حرا ھی دے دیتے تو میں کبھی انکی بیوفائ کا گلہ نا کرتی۔مگر۔۔۔میں اکیلی رھ گئ۔میں بھت اکیلی ھوں۔شاید میں اکیلی رھنے کے لیے ھی بنی ھوں۔میں آج بھی اسی کمرے میں جا کر روتی ھوں جھاں بچپن میں رویا کرتی تھی۔میں آج بھی ویسا ھی درد محسوس کرتی ھوں جیسا بچپن میں کرتی تھی۔احساس محرومی کا درد۔یہ درد مجھے آج بھی اتنا ھی بےچین رکھتا ھے جتنا کہ تب کرتا تھا جب امی مجھ پر بلاوجہ کی روک ٹوک کرتی تھی۔
:::::::::::::::::::::::::
آج میں مصطفٰی کے ساتھ بیٹھی تھی جو مجھے اپنے کالج کی باتیں بتا رھا تھا۔اچانک کھڑکی پر کچھ لگا اور اسکا شیشہ ٹوٹ گیا۔مصطفٰی نے دیکھا تو کچھ بچے تھے جو کھیل رھے تھے اور انکی بال لگنے سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔مصطفٰی بضد تھا کہ وہ بال واپس نھیں کرے گا مگر میرے کھنے پر اسے کرنا پڑا۔میں نے جب ان بچوں کے بارے میں مصطٰفی سے پوچھا تو مجھے معلوم ھوا کہ جسکی گیند سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا تھا وہ سمیع کا بیٹا تھا۔ماضی کے جھڑوکے میں مانو میں کھوئ رھی کچھ وقت۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
آج اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ڈائری نھیں لکھے گی۔وہ اپنے گھر کی بالکونی پر کھڑی تھی۔سامنے گلی میں کوی تماشے والا آیا تھا جسکے گرد بچے جمع تھے۔شروع شروع میں اس نے پرواہ نھیں کی مگر آھستہ آھستہ اسکی دلچسپی بڑھنے لگی۔اس تماشے والے کے پاس اک گڑیا تھی۔وہ گڑیا کاٹھ کی تھی۔اسکا مالک اسے جھاں چلاتا تھا وہ چل پڑتی تھی۔اس گڑیا کے چھرے پر کسی مصّور نے اک مسکراھٹ سجا دی تھی۔لھٰزا اگر کبھی وہ گر بھی پڑتی تھی تو تب بھی ھنستی ھی رھتی تھی۔اس کے مالک نے اسے وھی چھوڑا اور خود کھانا کھانے چلا گیا۔گڑیا،چونکہ اپنی مالک ک حرکت دینے سے ھی حرکت کرتی تھی لھٰزا وہ ساکن پڑی رھی۔بچوں نے اس کا بھت برا حال کیا مگر وہ ھنستی رھی۔اس گڑیا کا حال کافی حد تک خراب ھو گیا مگر اک چیز ابھی بھی واضح تھی اور وہ تھی۔۔۔۔اسکی مسکراھٹ۔یہ سب دیکھ کر وہ دوڑتی ھوئ اپنے کمرے میں گئ اور اپنی ڈائری تلاش کرنے لگی۔ڈائری ملتے ھی اس نے قلم یوں مضبوطی سے پکڑا کے مانو ابھی کچھ بھت لمبا لکھنے لگی ھو۔مگر اس نے بس کچھ الفاظ لکھ کر ڈائری بند کر دی۔اور بوجھل دل ک ساتھ دوبارہ بالکونی چلی گئ۔اب اکثر وہ ڈائری کھولتی ھے مگر بغیر لکھے ھی بند کر دیتی ھے۔اک دن ھوا اس کے کمرے کی کھڑکی سے لڑ کر اندر آ گئ جس سے اسکی ڈائری کا آخری صفحہ کھل گیا جس پر لکھا تھا: “می� اک لڑکی ھوں اور میں کاٹھ کی گڑیا ھوں“۔۔۔۔۔۔۔�
::::::::::::::::::::::::::::::::
حرا دس سال کی ھو گئ۔اسکے ابو نے اسے بے جا آسایشئں دی جن پر اگر میں منع کروں تو حرا مجھ سے بدتمیزی کرتی ھے۔حرا کا دھیان مجھ سے ھٹ رھا ھے۔وہ مجھے خود کا دشمن سمجھتی ھے۔میرا دل گھبراتا ھے کچھ غلط نا ھو جائے۔
::::::::::::::::::::::::::
امی کا انتقال ھو گیا۔اور انتقال کے چھ مھینے بعد ھی مجھے طلاق ھو گئ تھی۔میں اب دوبارہ اپنے میکے آگئ۔میں اب یھی رھتی ھوں۔مجھے حرا یاد آتی ھے۔میری کی گئ خدمتوں کے بدلے شھریار اگر مجھے حرا ھی دے دیتے تو میں کبھی انکی بیوفائ کا گلہ نا کرتی۔مگر۔۔۔میں اکیلی رھ گئ۔میں بھت اکیلی ھوں۔شاید میں اکیلی رھنے کے لیے ھی بنی ھوں۔میں آج بھی اسی کمرے میں جا کر روتی ھوں جھاں بچپن میں رویا کرتی تھی۔میں آج بھی ویسا ھی درد محسوس کرتی ھوں جیسا بچپن میں کرتی تھی۔احساس محرومی کا درد۔یہ درد مجھے آج بھی اتنا ھی بےچین رکھتا ھے جتنا کہ تب کرتا تھا جب امی مجھ پر بلاوجہ کی روک ٹوک کرتی تھی۔
:::::::::::::::::::::::::
آج میں مصطفٰی کے ساتھ بیٹھی تھی جو مجھے اپنے کالج کی باتیں بتا رھا تھا۔اچانک کھڑکی پر کچھ لگا اور اسکا شیشہ ٹوٹ گیا۔مصطفٰی نے دیکھا تو کچھ بچے تھے جو کھیل رھے تھے اور انکی بال لگنے سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔مصطفٰی بضد تھا کہ وہ بال واپس نھیں کرے گا مگر میرے کھنے پر اسے کرنا پڑا۔میں نے جب ان بچوں کے بارے میں مصطٰفی سے پوچھا تو مجھے معلوم ھوا کہ جسکی گیند سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا تھا وہ سمیع کا بیٹا تھا۔ماضی کے جھڑوکے میں مانو میں کھوئ رھی کچھ وقت۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
آج اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ڈائری نھیں لکھے گی۔وہ اپنے گھر کی بالکونی پر کھڑی تھی۔سامنے گلی میں کوی تماشے والا آیا تھا جسکے گرد بچے جمع تھے۔شروع شروع میں اس نے پرواہ نھیں کی مگر آھستہ آھستہ اسکی دلچسپی بڑھنے لگی۔اس تماشے والے کے پاس اک گڑیا تھی۔وہ گڑیا کاٹھ کی تھی۔اسکا مالک اسے جھاں چلاتا تھا وہ چل پڑتی تھی۔اس گڑیا کے چھرے پر کسی مصّور نے اک مسکراھٹ سجا دی تھی۔لھٰزا اگر کبھی وہ گر بھی پڑتی تھی تو تب بھی ھنستی ھی رھتی تھی۔اس کے مالک نے اسے وھی چھوڑا اور خود کھانا کھانے چلا گیا۔گڑیا،چونکہ اپنی مالک ک حرکت دینے سے ھی حرکت کرتی تھی لھٰزا وہ ساکن پڑی رھی۔بچوں نے اس کا بھت برا حال کیا مگر وہ ھنستی رھی۔اس گڑیا کا حال کافی حد تک خراب ھو گیا مگر اک چیز ابھی بھی واضح تھی اور وہ تھی۔۔۔۔اسکی مسکراھٹ۔یہ سب دیکھ کر وہ دوڑتی ھوئ اپنے کمرے میں گئ اور اپنی ڈائری تلاش کرنے لگی۔ڈائری ملتے ھی اس نے قلم یوں مضبوطی سے پکڑا کے مانو ابھی کچھ بھت لمبا لکھنے لگی ھو۔مگر اس نے بس کچھ الفاظ لکھ کر ڈائری بند کر دی۔اور بوجھل دل ک ساتھ دوبارہ بالکونی چلی گئ۔اب اکثر وہ ڈائری کھولتی ھے مگر بغیر لکھے ھی بند کر دیتی ھے۔اک دن ھوا اس کے کمرے کی کھڑکی سے لڑ کر اندر آ گئ جس سے اسکی ڈائری کا آخری صفحہ کھل گیا جس پر لکھا تھا: “می� اک لڑکی ھوں اور میں کاٹھ کی گڑیا ھوں“۔۔۔۔۔۔۔�
Muhammad wrote: "بہت خوب!
عمدہ تحریر ہے قابلِ صد ستائش!"
khali tareef nai krni rate b krna hai :P
عمدہ تحریر ہے قابلِ صد ستائش!"
khali tareef nai krni rate b krna hai :P

This is a kind of afsana and it is barely possible to translate literary work in its true sense. However you should wait if someone can do this for you.
Ahmed wrote: "Zarnab wrote:
khali tareef nai krni rate b krna hai :P"
اچھا کہاں ہے ریٹنگ کا آپشن؟"
oops!apko nai pta? :/ 10 mese rate krna hai khi option nahi hai apne khud bolna hai mein itna rate krta hu :P
khali tareef nai krni rate b krna hai :P"
اچھا کہاں ہے ریٹنگ کا آپشن؟"
oops!apko nai pta? :/ 10 mese rate krna hai khi option nahi hai apne khud bolna hai mein itna rate krta hu :P
Hmm.Well you should rate other stories as well. who knows they might be flawless :D
Aalia it's basically about a girl who was neglected by her mother and forced to grow up before her time on account if younger siblings. We learn all this through her journal entries. She falls in love with an older man in the neighborhood park, his parents don't agree. Her mother gets her married off to another man. She doesn't have a good marriage and ultimately gets divorced, after her husband gets married again, and also keeps her daughter. Her father had already passed in the beginning of the story, her mother passes away too. She comes to live in her mother's house with her you her siblings. She looks for her old journal but can never find it. She buys a new one but never writes in it. While looking out the window she sees her former lovers kids playing about the neighborhood. There is a part in the story where she always sees an elderly couple visit the park and always sit on the same bench, they suddenly stop coming. She always made her boyfriend sit there with her thinking, he tells her if you make me sit here because you think whoever sits here will always stay together, you should know that my grandma is dead and that is why my grandpa stopped coming to sit on the bench. She finds out that the man she loved always comes and sits on the bench alone. While looking out of the window she sees a street performer with a 'kaath ki guriya', which I'm assuming is a puppet doll with strings attached. She notices the doll has a smile painted on her face, and that she moves any which way her owner will have her. The kids stand around staring and enjoying the manipulation of the doll. The owner leaves the doll laying around to go and eat, the doll just stays still on the floor still with a huge smile painted on her face. So the girl makes the first and last entry in her new journal, "mein aik larki hun, aur mein kaath ki guriya hun". I'm a girl and I'm a puppet.
Hope it gives you some idea.
Hope it gives you some idea.

I just mentioned of some typos and they must not be considered as flaws. Just find and replace the following words and it will be 'flawless':
انتضار : انتظار
الفاض : الفاظ
لھٰزا : لہٰذا
عزاب : عذاب
زمہ داری : ذمہ داری
زہن : ذہن
مفھوم : مفہوم
ویسے آپ کے ہاں زیادہ تر متشابہات کے مسائل ہیں وہ ذرا سی کوشش سے دور ہو سکتے ہیں۔
اینی ویز !
بیسٹ آف لک!
ہیپی رائٹنگ۔ :)
wow zenab.well explained.seems you wrote this hehe :P

:) :)
Most Pakistani do this with Urdu. I mean roman Urdu is so common in Pakistan, specially in chats and text messages. :)
sorry guys...i cannot understand the writing....:/
Rao wrote: "7/10
Sorry
I don't like love story"
Are you sure you read the whole?Its not merely a love story dude :P
Sorry
I don't like love story"
Are you sure you read the whole?Its not merely a love story dude :P

lol me nither... im pakistani but i cant read it... im half afghan but i cant read that language either. i..."
If you can read arabic, It won't be difficult for you to get into the urdu script. Arabic and Urdu shares most of the characters.

Is it written by Zenab? or Zenab just posted it here?
I will also check other entries. :)

First of all my name is zarnab not zarban.Say me sorry :P
Secondly,Ok.everybody has his own tastes and choices.
@ahmed: YES!DO READ OTHER STORIES TOOOOOOOOO!
Secondly,Ok.everybody has his own tastes and choices.
@ahmed: YES!DO READ OTHER STORIES TOOOOOOOOO!
Ahmed I posted all the stories here. They come to my inbox for each contest. The authors are anonymous until we declare a winner.
Here are the top three stories from the contest. These are average scores based on the ratings. Now some has more number of ratings than others. These are the top three
Kaath ki guriya : 9.25
Her friend and her foe : 8.3
Albert : 8.06
A poll will be created for the top three. So please vote so we can have a winner.
Authors please claim your stories if you will.
Kaath ki guriya : 9.25
Her friend and her foe : 8.3
Albert : 8.06
A poll will be created for the top three. So please vote so we can have a winner.
Authors please claim your stories if you will.


Authors please claim your stories if you will. ..."
and what is the closing deadline?
Congratulations Zarnab! Your story, Kaath ki guriya, has won the contest. Thank you for writing the story. It was truly heartfelt.
Also congratulations to Rao for writing us the beautiful Her friend and her foe. Congratulations also go out to Muhammad for his story Albert. Thank you to each and everyone of you who participated and wrote a story and mad this a great contest.
Everyone who read and rated and voted you guys rock!
Also congratulations to Rao for writing us the beautiful Her friend and her foe. Congratulations also go out to Muhammad for his story Albert. Thank you to each and everyone of you who participated and wrote a story and mad this a great contest.
Everyone who read and rated and voted you guys rock!
Maffah wrote: "am reading it now after the contest and I think am gonna cry"
Goal is achieved! Thanks a tonne for such beautiful words.Means alot to me!
Goal is achieved! Thanks a tonne for such beautiful words.Means alot to me!
وہ جیسے ھی دوڑی تو گر پڑی۔اس سب میں میرا قصور نھیی تھا۔بلکل بھی نھیں
تھا۔مگر آپ نے تو جیسے سوچ لیا ھو کہ ھر غلط کام مجھ ھی سے منسوب کریں
گی۔آپ کھتی ھیں کہ میں بڑی ھوں اور اس ناطے مجھے زمہ داری کا احساس ھونا
چاھیے۔مگر امی١میں تو ابھی صرف چودہ برس کی ھوں۔مجھے ابھی اور کھیلنے دو
گڑیا سے۔کیا آپ میرا خیال بھی آمنہ کی طرح نھیں رکھ سکتی؟امی۔۔۔میں بھی
مصطفٰی کی طرح آپکے لاڈ چاھتی ھوں۔امی۔۔میں بھی آمنہ کی ھی طرح آپکے ساتھ
ھنسنا چاھتی ھوں۔جب مجھے مایوسی نظر آتی ھے تو میں چڑچڑی ھو جاتی ھوں مگر
یقین کیجئے امی میں بدتمیزنھیں ھوں۔میں تو بس اپنی گڑیا مانگ رھی تھی۔۔۔
یہ لکھ کر اس نے اپنی ڈائری اپنے پرانے بیگ میں رکھ کر اس بیگ کو سٹور
روم میں چھپا دیا۔اس رکھنے رکھانے میں اس کے ننھے رخساروں پر کچھ آنسو
بھے تھے جنکو اس نے فورُا سکھا لیا۔
:::::::::::::::::::
مجھے لگتا ھے کہ مجھ میں احساس زمہ داری پیدا ھو رھا ھے۔کیونکہ اب میرا امی سے کچھ مانگنے کو دل ھی نھی کرتا۔میں خوٍش ھوں کیونکہ اب گڑیا سے کھیلنے کا دل نھیں کرتا اور امی کہ ساتھ کام کرنے میں ھی دن گزر جاتا ھے۔ شاید یھی وہ احساس زمہ داری تھا جو امی مجھ میں لانا چاھتی تھی؟مگر یہ تو اپنے آپ آگیا۔میں آج تک نھیں سمجھ پائ امی کو۔ابو کے جانے کہ بعد وہ زیادہ اکھڑی رھتی ھیں مگر اگر انھیں ناراض ھونا ھے تو زندگی سے ھوں۔۔۔۔مجھ سے کیوں؟
:::::::::::::::::::::::::::
آج امی نے مجھے گھر آئے اک مھمان سے یہ کھہ کر ملنے نھیں دیا کہ میں بڑی ھو گئ ھوں۔بھلا یہ کیا بات ھوئ؟خیر،میرا کام بات ماننا ھے۔آیسا امی کھتی ھیں۔جھاں امی مجھ پر زمےداری کا احساس پیدا کرنا چاہ رئ ھیں وھی میرے سوالات بھی بڑھتے جا رھے ھیں۔امی۔۔۔کاش آپ تھوڑی نرم مزاج ھوتی۔خیر۔۔۔آج میں نے مصطفیٰ کو کھانی سنائ تو وہ بضد ھو گیا کہ اسے سنڈریلا سے بات کرنی ھے۔آمنہ کا کئ دنوں سے دانت ٹوٹنے والا تھا جو آج ٹوٹ ھی گیا۔وہ تو ایسا روئ کہ میرا دل کانپ گیا۔اسے روتا دیکھ کر مصطفٰی نے بھی رونا شروع کر دیا۔ان دونوں کو دیکھ کر دل کیا میں بھی رو دوں مگر امی نے کھا تھا میں بڑی ھوں،مجھ میں احساس زمہ داری ھونی چاھیے لھزٰا میں نے اسے چپ کرانے کے لیے اسے ٹوتھ فیری کی ڈیل کا بتایا۔ وہ ھنس پڑی کہ آنے والے کل میں اسے اک پری پیسے دے گی۔اسے خوش دیکھ کر مصطفیٰ بھی خوش ھو گیا۔اور ان دونوں کو دیکھ کر میں بھی ۔۔۔۔۔آب وہ اپنی ڈائری اپنی الماری میں ھی رکھا کرتی تھی۔
:::::::::::::::::::::::::::::
جیسے جیسے مصطفیٰ بڑا ھو رھا ھے وہ شیطان ھو رھا ھے۔امی نھیں چاھتی کہ وہ بگڑ جائے لھٰزا وہ ھر وقت اسے میرے ساتھ رکھنے میں فوقیت دیتی ھیں۔امی اسے بھی اس کے ھم عمر لڑکوں کہ ساتھ کھیلنے نھیں دیتی۔کھیں امی اس میں بھی تو وہ احساس زمہ داری لانا تو نھیں چاھتی،جو مجھ میں وہ وقت سے پھلے لے آئ ھیں؟امی ھر کام میں جلد بازی کرتی ھیں۔بھلا،اب اک سات سال کا بچہ اک سترہ سال کی بھن سے کیا کھیلے گا؟۔۔۔۔۔خیر،میرا کام امی کی باتیں ماننا ھیں۔۔۔آمنہ آج میری ڈائری پھاڑنے لگی تو میں نے بے ساختہ ھی اسے تھپڑ مار دیا جس کی وجہ سے وہ رونے لگی اور اسے دیکھ کر مصطفٰی بھی رونے لگا۔انھیں چپ کروانا بھی اک عزاب ھے تو میں ان کا دل بھلآنے کے لئے انھیں گھر کہ پاس بنے اک چھوٹے سے باغ میں لے گئ۔اس باغ میں چونکہ بچوں کے لیے جھولے بھی تھے تو میں نے سوچا دونوں کا دل بھل جائے گا۔
::::::::::::::::::
اور ان کا دل بھل بھی گیا١۔۔۔۔دو تین دن سے میں انھیں باقاعدہ باغ میں لے جا رھی ھوں۔اپنی اک دن کم اٹھارہ برس کی زندگی میں آج پھلی بار مجھے اپنے ابّا کے فوجی ھونے پر فخر تھا۔کیوںکہ اگر وہ فوجی نا ھوتے تو ھم اس کالونی میں نا رھتے اور اگر کالونی نا ھوتی تو میں آزادی سے اس باغ میں نا آ پاتی۔یقیننآ کوئ پڑھے گا تؤ ھنسے گا مگر میرے نزدیک یھی حقیقت ھے۔اس باغ کی اک خاص بات یہ ھے کہ یھاں اک بوڑھی آنٹی اور انکل آتے ھیں۔ان کا کھنا ھے ک وہ ھر روز یھاں آتے ھیں۔انکو دیکھ کر میں اکژ سوچتی ھوں کہ کوئ کیسے کسی کہ ساتھ ساری عمر ایسے رھ سکتا ھے گویا وہ اسے پھلی بار ملا ھو؟
امی ھمارے یھاں آنے پر زیادہ اعتراض نھیں کرتی۔کیونکہ یھاں ان بوڑھے جوڑے اور ھمارے علاوہ کم ھی کوئ آتا ھے۔۔۔۔
:::::::::::::::::::
میں نے مصطفٰی کو اک چڑیا کی کھانی سنائ تو وہ ضد کرنے لگا کہ مجھے چڑیا دیکھنی ھے۔اب بھلا میں کیسے اسے چڑیا دکھاتی؟۔۔۔۔میں اسے باغ میں لے گئ۔کافی عرصے بعد وھاں جا کر کافی اچھا لگا۔اس بار میں نے اس بوڑھے جوڑے کو نھیں دیکھا۔شاید انھوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا ھو گا۔میں ٹھیک سوچتی تھی۔آج کل کون کسی کا ساتھ دیتا ھے۔خیر۔میں نے مصطفٰی کو اک درخت کے پاس کھڑا کیا اور اس کی ٹھنی کو ھلا کر کھنے لگی:“چڑیا١پلیز،نیچ� آ جاو۔۔میں کافی دیر تک بولتی رھی۔شروع شروع میں مصطفٰی بھی میرے ساتھ بول رھا تھا مگر اچانک سے اسکی آواز آنا بند ھو گئ۔اس سے پھلے میں مڑ کے دیکھتی میرے کانوں میں اک آواز آئ:“آپک� چڑیا تو نجانے کب آے گی مگر آپکا بھائ ضرور اس جھولے کی ضد میں آنے لگا تھا۔“پھل� پھل تو مجھے لگا کہ مجھے وھاں کھڑے عرصہ ھو گیا اور مصطفٰی بڑا ھو گیا مگر مصطفٰی کو قریب روتا دیکھ کر احساس ھوا کہ وہ کوئ اور ھی لڑکا تھا۔میں بغیر کچھ کھے مصطفٰی کو گھر لے آئ۔میں نھیں جانتی کہ وہ کون تھا مگر جو بھی تھا اک حوبرو نوجوان تھا۔ایسے لڑکوں کو اکثر لڑکیوں کی مائیں اپنی بیٹیوں کہ لیے بڑی جلدی پسند کر لیتی ھیں۔۔۔۔مگر ان ماوں میں میری ماں نھیں آتی۔۔۔۔شاید۔۔۔۔۔
::::::::::::::::::::::::::::
اس کا نام سمیع ھے۔وہ تیس برس کا ھے۔بڑا نھیں مجھ سے؟جو بھی ھے مجھے پسند ھے اسکی باتیں سننا اور اپنی باتیں سنانا۔اسکی باتوں کی اکثر مجھے سمجھ نھیں آتی مگر وہ کھتا ھے کہ اسے میری باتیں بچگانی لگتی ھیں۔مجھے لگتا تھا وہ اک عقلمند لڑکا ھو گا مگر اسے کون عقلمند کھے جو اک انٹر کی سٹوڈنٹ کو ایم-اے کے سوال سمجھاے۔میرا سر درد کرتا ھے۔لھٰزا آج میں نے اس سے بات ھی نھیں کی۔اس نے وجہ پوچھی تو میں نے صاف صاف کھہ دیا کہ دیکھو١تمھیں اگر مجھے سمجھانا ھے تو مجھے بس یہ بتا دو کہ آخر سر سید کی خدمات ھی کیوں ھر بار اھم سوال ھوتا ھے۔اس پر وہ کافی دیر تک ھنستا رھا۔ھمارے محتلف مزاج،وہ کھتا ھے کہ یھی بات ھمیں منفرد بناتی ھے۔وہ ٹھیک کھتا ھے۔وہ جتنا مجھ سے محتلف ھے اتنا ھی پیارا ھے۔
::::::::::::::::::::::::::::::::
آج امی کی طبعیت خراب تھی،میں باغ نھیں جا سکی۔میں اتنی مصروف رھی کہ
سمیع کو بتانا یاد ھی نھیں رھا۔وہ یقینا ناراض ھو گا مجھ سے۔مگر میری وجہ
جاننے کے بعد وہ سمجھ جاے گا۔وہ ھر صورت حال کو بھت جلدی سمجھ جاتا ھے۔آج
امی نے مجھ سے عجیب سی بات کی جسکا مفھوم مجھے یہ سمجھ آیا کہ وہ چاھتی
ھے کہ میری شادی جلدی ھو جاے۔امی۔۔۔اپکو اتنی کیا جلدی ھے۔مجھ سے کچھ
لکھا نھیں جا رھا۔مجھے سمیع سے اس بارے میں بات کرنی ھو گی۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میں آج ھوئ ساری باتوں کا مفھوم نھیں لکھ سکتی کیونکہ وہ باتیں حرف بہ
حرف میرے زھن میں رقص کر رھی ھیں۔میں ویسے ھی لکھ دیتی ھوں۔
“می� تمھیں اتنی اسانی سے تو جانے نھیں دونگا۔�
“پھر؟ت� کیا کرو گے؟�
“اپن� گھر والوں سے بات کروں گا�
“اگ� وہ نا مانے تو؟�
“ن� ماننے والی بات کونسی ھے؟�
“ھمار� بیچ برادری،دولت ھر چیز کا فرق موجود ھے۔پھر وہ کیونکر مانے گے؟�
تم اپنے چھوٹے سے زھن پر زور نا دو۔میں سنبھال لوں گا�
میں سنبھال لوں گا....یھی وہ الفاض تھے جنکو سننے کہ لے میں نے پچھلی ساری
رات انتضار کیا تھا۔سمیع سے بات کرنے کہ بعد دل ھمیشہ ھلکا ھو جاتا
ھے۔ایسا لگتا ھے کہ اسکی امی نے اس میں احساس زمہ داری وقت کے ساتھ ھی
آنے دیا تھا۔وہ میری طرح بلکل بھی نھیں تھا مگر وہ بھت خوب صورت تھا۔شکل
سے بھی اور دل سے بھی۔۔۔۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سمیع کے گھر والوں نے انکار کر دیا۔وہ کھتے ھیں کہ وہ سّید ھیں اور سیّد
اپنے سے نیچے لوگوں میں شادی نھیں کرتے۔ابّا تو جنرل تھے وہ “نچلے“لوگو�
میں سے نھیں تھے۔۔۔امی کو یہ بات بھت بری لگی۔انھوں نے میرا گھر سے نکلنا
بند کر دیا۔اب شاید میں سمیع کو کبھی نا دیکھ پاؤں۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
“ت� مجھے اسی بنچ پر کیوں بٹھاتی ھوِ؟�
“ج� یھاں بیٹھے گا وہ ھمیشہ ساتھ رھے گا�
“اگ� تم اس بوڑھے جوڑے کی نقل کر رئ تو میں تمھیں بتا دوں کہ میری دادی امی وفات پا چکی ھیں۔تبھی میرے دادا نے یھاں آنا چھوڑ دیا۔�
“ھاے١اٹ� جاؤ یھاں سے١�
“ت� فکر نا کرو۔تم مر بھی جاؤ تو میں یھاں آتا رھوں گا�
³چ؟�
“ھاں۔۔۔مگ� کسی اور کے ساتھ�
کتنا خوش ھوا تھا وہ اور کتنی ناراض ھوئ تھی میں۔اگر اس نے کھیں اور شادی کر لی تو؟امی نے اک بار کزن ھارث کو کھا تھا کہ تم پچیس کے ھو گئے ھو شادی کر لو اب۔۔اللہ١کتنا درد ھو رھا ھے مجھے یہ سوچ کر بھی۔میرا دل درد سے پھٹ رھا ھے جب کہ لوگوں کے سر پھٹا کرتے ھیں۔میری روح پر یہ محبت اک زخم چھوڑ گئ ھے جو ھر وقت سلگتا رھتا ھے اور بس سلگتا ھی رھتا ھے۔۔۔۔۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
آج میں نے اک نئ ڈائری خریدی،حرا کو سکول چھوڑتے وقت۔میں اس نئ ڈائری پر کافی عرصے بعد لکھ رھی ھوں۔سال گزر گئے۔سب بدل گیا سوائے میرا لکھنے کے شوق کے۔حرا نے مجھے مکمل کر دیا ھے۔میں کبھی اس کے ساتھ وہ نھیں کروں گی جو امی نے میرے ساتھ کیا-جلدبازی۔میری اولاد نے مجھے سکون بخشا ھے ورنہ یہ خالی گھر تو میری زات کو بھی خالی کر دیتا۔ میرے خاوند کے پاس اتنا وقت نھیں کہ وہ میری تنھائیاں بانٹ سکیں۔امی بیوہ ھو کہ اکیلی تھی اور میں شادی شدہ ھو کہ بھی۔میں حرا کی آنے والی زندگی کو لے کر سوچتی ھوں اور دن گزر جاتا ھے۔میں نے خود سے وعدہ کیا ھے کہ میں اس میں احساس زمہ داری وقت سے پھلے نھیں آنے دوں گی۔امی بھت بوڑھی ھو چکی ھے۔میں اکثر انکی عیادت کرنے اپنے میکے آجاتی ھوں۔کبھی کبھی میں سب سے چھپ کر اپنی پرانی ڈائری ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ھوں مگر وہ بلکل وھی چڑیا بن چکی ھے جو کبھی بلانے پر نھیں آتی۔آمنہ اور مصطٰفی اب بڑے ھو چکے ھیں لھٰزا اب انھیں میری کھانیوں میں دلچسپی نھیں رھی۔سب بدل گیا۔آمنہ نے آج مجھے آنے سے پھلے بتایا کہ اگر کچھ نھیں بدلا تو وہ ھیں سمیع کا انتضار۔بقول آمنہ سمیع آج بھی وھاں آتا ھے۔۔۔۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::
میرے خاوند مجھ سے بات بہ بات ناراض ھو جاتے ھیں۔میں انکی ناراضگی کو دور کرنے کے لئے ھر جتن کر چکی مگر وہ بھی امی کی طرح ھیں-ناراض۔آج صبح انھوں نے گلاس یہ کھہ کر توڑ دیا کہ میں نے انکے کپڑے جلا دیے۔بھلا کپڑوں کے جلنے سے گلاس کو توڑنے کا کیا تعلق ھے؟آج حرا کی سالگرہ تھی اور وہ یہ بات بھی بھول گئے۔بھول سے یاد آیا کہ وہ اکثر کھہ دیتے ھیں کہ تم اک بھول ھو۔۔۔۔مجھے دکھ ھوتا ھے۔میں نے امی کو بتایا تو انھہوں نے کھا “تمھار� جلد شادی اک بھول تھی� اور میں نے ھنس کر کھا “ام� آپ ھر کام میں ھی جلد بازی کرتی ھیں“۔۔۔�